رات ابھی باقی ہے



اک

زندہ ہوں میں تو کیسے کوئی مقام ہوگا 
مرنے کے بعد جگ میں اپنا بھی نام ہوگا 

ساقی تیرے شرابی صف باندھ کر کھڈے ہیں 
پھر کیوں مکر رہے ہیں نفرت کا زام ہوگا 

انکا قریب آنایوں ہی نہیں ہیں ! یاروں 
مطلب کے دوستوں کو فر ہمسے کام ہوگا 

دل میں اتار لوں میں ٹھہروں یہ پیاری صراط !
کیا جانے تم سے صاحب فر کب سلام ہوگا 

کر دیں گے خاق  مجھ کو سب میرے  اپنے مل کر 
ان میں میرے ستمگر ترا بھی نام ہوگا 

ماٹی کی گند میں  کچھ یادیں رہیگی باقی 
یا فر یہاں سخنور ترا قلَم ہوگا 

اس درد کا ابھی سے کر کچھ  علاج  ورنہ
گاہے بگاہے جو ہے فر سبح و سام ہوگا 

خاموشیوں  میں باقی میری سداہیں ہونگی 
رہ رہ کے گونجتا بس دل کا پیام ہوگا 

سوچو "یقین" سوچو! اس حال کا مداوا 
چپ چپ کے وار ہیں اب فر قتل ام ہوگا 
                          -------